محرم الحرام کی فضیلت: عزاداری کا فلسفہ اور اسلامی تاریخ میں اس کا مقام
محرم الحرام، اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ، صرف ایک نئے سال کا آغاز ہی نہیں ہے بلکہ اس میں گہری روحانیت، تاریخی اہمیت اور مسلمانوں کے لیے ایک خاص مقام ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ہم اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے نواسے، جوانان جنت کے سردار، حضرت امام حسینؓ کی قربانی کو یاد کرتے ہیں۔ محرم الحرام کی فضیلت اور عزاداری کا فلسفہ صرف غم منانے تک محدود نہیں، بلکہ یہ صبر، استقامت، حق و صداقت کی سربلندی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا درس دیتا ہے۔
محرم الحرام کی فضیلت اور اہمیت
محرم الحرام کو اللہ تعالیٰ نے چار مقدس مہینوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے، اللہ کے لکھے ہوئے اس دن سے جب سے اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔" (سورہ توبہ: 36)۔ ان چار مہینوں میں سے ایک محرم الحرام ہے۔ اس مہینے کی حرمت اور فضیلت کی وجہ سے اس میں نیک اعمال کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور گناہوں کی سزا بھی۔
محرم الحرام کی اہمیت کے حوالے سے احادیث مبارکہ میں بھی بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: "رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں۔" (صحیح مسلم)۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک محرم الحرام کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ اس مہینے میں روزہ رکھنا باعث ثواب ہے اور یہ اللہ سے قربت حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
دسویں محرم، جسے یوم عاشور بھی کہا جاتا ہے، کی اپنی الگ فضیلت ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے کئی اہم واقعات رونما فرمائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات دلائی گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی بھی اسی دن کنارے لگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور ان کا آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ بھی اسی دن سے منسوب ہے۔ ان تمام واقعات میں حق کی فتح اور باطل کی شکست کا درس پنہاں ہے۔
عزاداری کا اصل فلسفہ
محرم الحرام کا ذکر آتے ہی کربلا کے المناک واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہل بیتؓ نے یزید کی ظالمانہ حکومت کے خلاف حق کا پرچم بلند کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ یہ قربانی صرف ایک خاندان کی قربانی نہیں بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک درسِ حیات ہے۔ عزاداری کا اصل فلسفہ دراصل اسی قربانی کی یاد کو زندہ رکھنا اور اس سے سبق حاصل کرنا ہے۔
عزاداری کا مطلب صرف رونا پیٹنا یا غم منانا نہیں، بلکہ یہ ایک گہرا روحانی اور فکری عمل ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ:
- حق و صداقت کی سربلندی: امام حسینؓ نے باطل کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا اور حق کا راستہ اختیار کیا۔ عزاداری ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
- ظلم کے خلاف آواز: امام حسینؓ نے ظلم و ناانصافی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ عزاداری ہمیں سکھاتی ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم ہو، اس کے خلاف آواز اٹھانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
- صبر و استقامت: کربلا کا میدان صبر و استقامت کی ایک لازوال داستان ہے۔ امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے انتہائی کٹھن حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ عزاداری ہمیں سکھاتی ہے کہ مصائب اور مشکلات میں اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ثابت قدم رہنا چاہیے۔
- ایثار و قربانی: امام حسینؓ نے اسلام کی بقا کے لیے اپنی جان، مال اور اہل و عیال کی قربانی پیش کی۔ عزاداری ہمیں سکھاتی ہے کہ ضرورت پڑنے پر اسلام اور دین کی سربلندی کے لیے ایثار اور قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
- اتحاد و یکجہتی: کربلا میں مختلف پس منظر کے لوگ امام حسینؓ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے قربانی دی۔ عزاداری ہمیں سکھاتی ہے کہ مسلمانوں کو رنگ و نسل، زبان اور علاقے کی تفریق سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔
عزاداری کے ذریعے ہم کربلا کی عظیم قربانی کو یاد کرتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محض ایک رسمی عمل نہیں بلکہ ایک تجدید عہد ہے کہ ہم بھی حق کے ساتھ اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔
اسلامی تاریخ میں محرم کا مقام
محرم الحرام کی اسلامی تاریخ میں ایک خاص اور منفرد مقام ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ہجری کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت، جو اسلامی تاریخ کا ایک سنگ میل ہے، اسی مہینے سے شروع ہوئی۔ اس طرح محرم الحرام مسلمانوں کے لیے ایک نئے آغاز، ایک نئے سفر اور ایک نئی سمت کا تعین کرتا ہے۔
کربلا کا المناک واقعہ محرم الحرام کی تاریخ کا سب سے اہم باب ہے۔ 61 ہجری میں، دسویں محرم کو، کربلا کے میدان میں جو کچھ ہوا، اس نے اسلامی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ امام حسینؓ کی قربانی نے اسلام کی اصل روح کو زندہ رکھا اور اسے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا۔ اس واقعے نے اموی خلافت کی ظالمانہ پالیسیوں کو بے نقاب کیا اور مسلمانوں کو بیدار کیا۔
کربلا کے واقعے کے بعد، عزاداری کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ یہ سلسلہ صرف غم منانے کے لیے نہیں بلکہ اس واقعے سے حاصل ہونے والے اسباق کو زندہ رکھنے کے لیے ہے۔ مجالس عزا، جلوس ہائے عزاداری، اور ماتمی سرگرمیاں سبھی اسی قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے اور اس کے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ ہیں۔
محرم الحرام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کئی تاریخی واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دسویں محرم کو حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر نکالے گئے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے شفاء ملی۔ یہ سب واقعات اللہ کی رحمت، مغفرت اور آزمائشوں میں صبر کرنے والوں کے لیے اجر عظیم کی نشانی ہیں۔
محرم الحرام اور صبر کا درس
محرم الحرام ہمیں صبر کا درس دیتا ہے۔ کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور ان کے اہل بیتؓ نے جس طرح صبر کا مظاہرہ کیا، وہ کسی بھی مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ شدید پیاس، بھوک، اور اپنے پیاروں کو باری باری قربان ہوتے دیکھ کر بھی انہوں نے اللہ کی رضا پر صبر کیا۔
یہ صبر صرف مشکل وقت میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ضروری ہے۔ جب ہم کسی تکلیف میں مبتلا ہوں، کسی پریشانی کا سامنا ہو، یا کوئی ناگوار واقعہ پیش آئے، تو ہمیں امام حسینؓ کے صبر کو یاد رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
صبر کی اہمیت پر ایک مختصر کہانی:
پرانے زمانے میں ایک گاؤں میں ایک بزرگ رہا کرتے تھے۔ وہ بہت بیمار رہتے تھے اور ان کے پاس کھانے پینے کو بھی زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن ان کے پڑوسی نے ان سے پوچھا: "مولوی صاحب، آپ اتنی تکلیف میں ہیں، بیمار ہیں، فاقہ کشی ہے، پھر بھی آپ اتنے مطمئن اور شکر گزار کیسے رہتے ہیں؟"
بزرگ مسکرائے اور فرمایا: "بیٹا، جب میں کربلا کا واقعہ یاد کرتا ہوں، تو مجھے اپنی ساری تکلیفیں معمولی لگتی ہیں۔ امام حسینؓ نے وہ قربانی دی کہ جس کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی قربانی کے سامنے میری تکلیف کچھ بھی نہیں۔ جب اللہ کی رضا پر راضی ہو جائیں اور اس کی رضا کے لیے صبر کریں، تو ہر تکلیف آسان ہو جاتی ہے۔"
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ جب ہم اپنی مشکلات کا موازنہ ان لوگوں کی قربانیوں سے کرتے ہیں جنہوں نے اسلام کے لیے عظیم قربانیاں دیں، تو ہمیں اپنی مشکلات بہت چھوٹی لگنے لگتی ہیں۔ محرم الحرام ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ ہم صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔
عزاداری کے تناظر میں پکوان: "حلیم" کا خصوصی مقام
محرم الحرام کے مہینے میں، بالخصوص دسویں محرم کے موقع پر، بہت سے گھرانوں میں روایتی طور پر "حلیم" پکایا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک پکوان نہیں بلکہ اس کے ساتھ عقیدت اور احترامات جڑے ہوئے ہیں۔
حلیم کی کہانی:
کہا جاتا ہے کہ جب کربلا کا واقعہ پیش آیا اور امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو شدید پیاس اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا، تو ان کی قربانی کو یاد میں اور ان کی مشکل وقت کی شدت کو محسوس کرنے کے لیے، بعد میں علماء اور بزرگان دین نے اس پکوان کی روایت شروع کی۔ حلیم کا مطلب ہے "تحمل" یا "صبر" اور یہ نام ان hardships کی عکاسی کرتا ہے جو امام حسینؓ اور ان کے خاندان نے برداشت کی۔
حلیم کی تیاری میں گندم، گوشت (عام طور پر بیف یا چکن) اور دالوں کو کئی گھنٹوں تک ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے جب تک کہ یہ ایک گاڑھا اور نرم لقمہ نہ بن جائے۔ اس میں مختلف مصالحے شامل کیے جاتے ہیں جو اسے ایک منفرد ذائقہ دیتے ہیں۔ اوپر سے گھی، تلی ہوئی پیاز، ادرک اور ہری مرچوں سے سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ پکوان صرف پیٹ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک یادگار اور عقیدت کا اظہار ہے۔ اسے تقسیم کرنے کی بھی روایت ہے، جو ایثار اور سخاوت کی علامت ہے۔
حلیم کی ترکیب:
اجزاء:
- 500 گرام گندم (رات بھر بھگوئی ہوئی)
- 500 گرام گوشت (بیف یا چکن، ہڈی والا ہو تو بہتر)
- 100 گرام چنے کی دال (دھو کر بھگوئی ہوئی)
- 100 گرام ماش کی دال (دھو کر بھگوئی ہوئی)
- 1 بڑا پیاز، باریک کٹا ہوا
- 2 کھانے کے چمچ ادرک لہسن کا پیسٹ
- 1 چمچ ہلدی پاؤڈر
- 1 چمچ دھنیا پاؤڈر
- 1 چمچ گرم مصالحہ پاؤڈر
- نمک حسب ذائقہ
- پانی حسب ضرورت
- گھی، تلی ہوئی پیاز، ادرک، ہری مرچیں، لیموں (گارنش کے لیے)
بنانے کا طریقہ:
- ایک بڑے برتن میں گندم، گوشت، چنے کی دال، ماش کی دال، پیاز، ادرک لہسن کا پیسٹ، ہلدی، دھنیا پاؤڈر، گرم مصالحہ اور نمک ڈالیں۔
- اتنا پانی شامل کریں کہ تمام اجزاء اچھی طرح ڈوب جائیں۔
- برتن کو درمیانی آنچ پر رکھیں اور ابال آنے دیں۔
- جب ابال آجائے تو آنچ کو بالکل ہلکا کر دیں اور ڈھکن لگا کر کم از کم 4-5 گھنٹے تک پکنے دیں۔ بیچ بیچ میں چمچ چلاتے رہیں تاکہ نیچے نہ لگے۔
- جب گندم اور گوشت اچھی طرح گل جائیں اور سب کچھ گاڑھا ہو جائے، تو اسے لکڑی کے چمچ یا بلینڈر کی مدد سے اچھی طرح گھونٹ لیں۔
- اگر بہت زیادہ گاڑھا ہو جائے تو تھوڑا گرم پانی شامل کر سکتے ہیں۔
- تیار حلیم کو گرم گرم گھی، تلی ہوئی پیاز، ادرک، ہری مرچیں اور لیموں کے ساتھ پیش کریں۔
ضروری اوزار (Kitchen Utensils):
- بڑا اور بھاری پیندے والا برتن (Deba/Degchi)
- لکڑی کا بڑا چمچ (Wooden Spoon)
- چھلنی (Strainer)
- چاقو (Knife)
- کٹنگ بورڈ (Cutting Board)
- بلینڈر (اختیاری)
- کھانے کے چمچ اور پیالے (Serving Spoons and Bowls)
Ad Placeholder: Consider placing an AdSense ad here.
اختتامیہ
محرم الحرام کی فضیلت، عزاداری کا فلسفہ اور اسلامی تاریخ میں اس کا مقام ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق کا راستہ اختیار کرنا، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھنا اور ایثار و قربانی سے کام لینا ہی اصل کامیابی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم محرم الحرام کے پیغام کو سمجھیں اور اپنی زندگیوں میں اس کے اصولوں کو اپنائیں۔ کربلا کی قربانی کو یاد رکھ کر ہم دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔
No comments: