رَبيع الثاني کی فضیلت: اسلامی تاریخ کے اوراق سے دلچسپ حقائق
اسلامی سال کے بارہ مہینوں میں سے ہر مہینے کی اپنی الگ فضیلت اور اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ کی صورت میں جو احکامات دیے ہیں، ان میں اسلامی مہینوں کے تقدس اور ان کے ذریعے عبادات اور نیک اعمال کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ آج ہم اسلامی تقویم کے چوتھے مہینے "ربیع الثانی" کے فضائل اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے۔
ربیع الثانی کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں وہ مبارک مہینہ آتا ہے جس میں اسلام کی تاریخ کے کئی اہم واقعات رونما ہوئے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے رب سے قربت حاصل کرنے اور اس کے حضور میں اپنی عبادات کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ربیع الثانی: نام اور معنی
"ربیع" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "بہار"۔ چونکہ یہ سال کا دوسرا ربیع ہے، اس لیے اسے "ربیع الثانی" (دوسری بہار) کہا جاتا ہے۔ اسلامی سال میں دو ربیع کے مہینے آتے ہیں: ربیع الاول (پہلی بہار) اور ربیع الثانی (دوسری بہار)۔ یہ نام اس مہینے کی خوبصورتی، تازگی اور رحمتوں کے نزول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں ربیع الثانی کی اہمیت
ربیع الثانی کا مہینہ اسلامی تاریخ کے اوراق میں گہرے نقوش رکھتا ہے۔ اس مہینے میں کئی اہم شخصیات کی ولادت، وفات یا کسی اہم اسلامی فتح کا تعلق ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ربیع الاول کی طرح اس مہینے میں نبی کریم ﷺ کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے، لیکن دیگر تاریخی واقعات بھی اس مہینے کو ممتاز بناتے ہیں۔
ایک تاریخی قصہ: حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمات
ربیع الثانی کے مہینے کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے، ہمیں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت 8 ربیع الثانی 83 ہجری کو ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ علم و عرفان کا ایک ایسا سمندر تھے جن سے لاکھوں مسلمانوں نے فیض حاصل کیا۔ آپ نے حدیث، فقہ، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ آپ کے شاگردوں میں سے کئی بڑے علماء اور محدثین شامل تھے جنہوں نے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی علمی و روحانی شخصیت نے اسلامی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
دیگر اہم واقعات
ربیع الثانی کے مہینے میں دیگر کئی اہم واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کچھ واقعات کا تعلق اسلامی فتوحات، اولیاء کرام کے وصال یا اہم اسلامی شخصیات کی خدمات سے ہو سکتا ہے۔ ان واقعات کو یاد رکھنا ہمیں اپنے اسلامی ورثے سے جوڑے رکھتا ہے اور ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور خدمات کا احساس دلاتا ہے۔
ربیع الثانی میں فضائل اور اعمال
ہر اسلامی مہینے کی طرح، ربیع الثانی میں بھی نیک اعمال کرنے، عبادات میں اضافہ کرنے اور اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔
روزے کی فضیلت
اگرچہ ربیع الثانی میں مخصوص روزے فرض نہیں ہیں، لیکن عام نفلی روزے رکھنے کی فضیلت ہر وقت موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ نے نفلی روزوں کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے۔ پیر اور جمعرات کے روزے رکھنا سنت ہے، اور اگر یہ دن ربیع الثانی میں آئیں تو ان کا اجر اور فضیلت اور بڑھ جاتی ہے۔
صدقہ و خیرات
ربیع الثانی کے مہینے میں صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے۔ مساکین اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث بنتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنی خوشحالی میں سے دوسروں کا حصہ نکالنے کی ترغیب دیتا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت
قرآن مجید کی تلاوت سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے قربت بڑھتی ہے۔ ربیع الثانی میں زیادہ سے زیادہ وقت قرآن مجید کی تلاوت کے لیے مختص کرنا چاہیے۔ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ تلاوت کرنے سے قرآن کے پیغام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
درود و سلام
نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس سے اجر عظیم ملتا ہے۔ ربیع الثانی میں نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے درود و سلام کا ورد زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔
ایک روایتی میٹھے کی ترکیب: "گوڑ کی پُڑیاں" (تاریخی پس منظر کے ساتھ)
آئیں، ربیع الثانی کی مبارک ساعتوں میں ہم ایک روایتی اور ذائقہ دار میٹھے کی ترکیب سیکھتے ہیں، جس کا تعلق ہمارے دیہاتوں کی پرانی یادوں سے ہے۔ یہ میٹھا خاص طور پر سرد موسم میں یا خوشی کے مواقع پر بنایا جاتا تھا۔
کہانی:
بہت پرانے وقتوں کی بات ہے، جب آج کی طرح مہنگے اور جدید مٹھائیاں عام نہیں تھیں۔ ہمارے بزرگوں کے پاس جو چیزیں میسر ہوتی تھیں، انہی سے وہ ذائقہ دار اور خوش ذائقہ چیزیں بنا لیتے تھے۔ گاؤں کی ایک خاتون، جن کا نام فاطمہ تھا، وہ ربیع الثانی کے مہینے میں جب موسم قدرے ٹھنڈا ہو جاتا اور گھر میں گندم کا آٹا اور گڑ موجود ہوتا، تو وہ اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے "گوڑ کی پُڑیاں" بناتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پُڑیاں نہ صرف پیٹ بھرتی ہیں بلکہ ان میں رب کی نعمتوں کا ذائقہ بھی ہے۔ یہ میٹھا ان کے لیے صرف ایک غذا نہیں تھی، بلکہ محبت، اپنائیت اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ جب ربیع الثانی آتا، تو بچے انتظار کرتے کہ کب فاطمہ دادی انہیں یہ خستہ اور میٹھی پُڑیاں بنا کر کھلائیں۔
اجزاء:
- 2 کپ گندم کا آٹا
- 1/2 کپ سوجی (باریک)
- 1/4 چمچ الائچی پاؤڈر
- 1/4 چمچ نمک
- 1/4 چمچ بیکنگ سوڈا
- 1/2 کپ گھی (یا تیل)
- 1 کپ گڑ (باریک کٹا ہوا)
- 1/4 کپ پانی (گڑ پگھلانے کے لیے)
- تل (گارنش کے لیے، اگر چاہیں)
بنانے کا طریقہ:
- آٹے کا مکسچر تیار کرنا: ایک بڑے پیالے میں گندم کا آٹا، سوجی، الائچی پاؤڈر، نمک اور بیکنگ سوڈا ڈال کر اچھی طرح مکس کریں۔
- گھی شامل کرنا: اب اس آٹے کے مکسچر میں گھی (یا تیل) ڈال کر ہاتھوں کی مدد سے اچھی طرح ملائیں جب تک کہ یہ مکسچر بھور بھورا سا نہ ہو جائے۔ یہ پُڑیوں کو خستہ بنانے کے لیے بہت اہم مرحلہ ہے۔
- گڑ کی چاشنی تیار کرنا: ایک پین میں کٹا ہوا گڑ اور پانی ڈال کر درمیانی آنچ پر گرم کریں۔ گڑ کو مکمل طور پر پگھل جانے دیں اور ایک گاڑھی چاشنی بننے تک پکائیں۔ چاشنی زیادہ پتلی نہ ہو۔
- آٹا گوندھنا: جب گڑ کی چاشنی تیار ہو جائے تو اسے تھوڑا سا ٹھنڈا ہونے دیں (بہت زیادہ گرم نہ ہو)۔ اب آہستہ آہستہ اس چاشنی کو آٹے کے مکسچر میں شامل کرتے جائیں اور نرم آٹا گوندھ لیں۔ آٹا بہت سخت یا بہت نرم نہیں ہونا چاہیے۔
- پُڑیاں بنانا: گوندھے ہوئے آٹے کی چھوٹی چھوٹی گولیاں بنا کر انہیں ہتھیلی سے دبا کر تھوڑی موٹی پُڑیوں کی شکل دیں۔ آپ چاہیں تو ان پر کانٹے سے ہلکے نشان بھی بنا سکتے ہیں۔
- فرائی کرنا: ایک کڑاہی میں گھی یا تیل گرم کریں اور درمیانی آنچ پر پُڑیوں کو سنہری اور خستہ ہونے تک فرائی کریں۔
- پیش کرنا: فرائی کی ہوئی پُڑیوں کو نکال کر ٹھنڈا ہونے دیں۔ اگر چاہیں تو اوپر سے تل چھڑک کر پیش کریں۔ یہ خستہ اور میٹھی پُڑیاں چائے کے ساتھ یا ویسے ہی کھائی جا سکتی ہیں۔
ضروری اوزار (Kitchen Utensils)
- پیمائش والے کپ اور چمچ
- بڑا مکسنگ باؤل
- پین یا کڑاہی (فرائی کرنے کے لیے)
- چمچ یا سپاٹولا (مکس کرنے اور پلٹنے کے لیے)
- چھلنی (آٹا اور سوجی چھاننے کے لیے)
- تھالی یا ٹرے (پُڑیاں رکھنے کے لیے)
اختتامی کلمات
ربیع الثانی کا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی میں ہر لمحہ اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کریں، عبادات میں دل لگائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ تاریخ کے اوراق سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
No comments: